:سید عتیق الحن
آج کوئی مانے یا نہ مانے وقت نے ثابت کر دیا ہے کہ جو میں پی پی پی اور ایم کیو ایم کے بارے میں پچھلے تیس سالوں سے اپنے مختلف سیاسی تبصروں میں لکھتا رہا ہوں ، ریڈیو اور ویڈیو پروگراموں میں کہتا رہا ہوں ثابت ہو چکا ہے۔دونوں جماعتوں نے لسانی سیاست سے اپنی جماعتوں کے گرد سندھ کے عام لوگوں کو گوند کی طرح چپکائے رکھا مگر بدلے میں دی صرف نفرت، تقسیم، بے روزگاری اور سب سے بڑھ کر کرپشن اور غنڈا گردی کا تحفہ۔ آج ان ِ دونوں جماعتوں کو اپنی جماعتوں کو ایک اکائی رکھنے کا سب سے بڑا مسلہ درپیش ہے۔
چالیس سال اردو بولنے والوں کو مہاجروں اور حقوق کے نام پر اپنے پیچھے لگا کر رکھنے والے الطاف حسین کا معلوم نہیں کہہ وہ اب کہاں ہیں؟ آج کسی مخالف کوانُ کے خلاف کچھ کرنے کی ضرورت نہیں ۔ دنیا میں کوئی ایسی دوسری مثال نہیں ملتی جو الطاف حسین کی اپنی جماعت کے اگلی صفوں کے قائدین اور ارکان پارلیمنٹ نے الطاف حسین کے ساتھ کیا ہے۔ خود الطاف حسین کے خلاف انُ ہی کے ارکان پارلیمنٹ میں سندھ اسمبلی سے اور بلدیہ کے کونسلروں نے بلدیہ کے ایوان سے پاکستان سے غداری کی قرارد منظور کرائی !
آج سندھ کے شہری علاقوں کا اردو بولنے والا نہ صرف پریشان ہے بلکہ اپنی ہی دیانتداری اور پابندی کے ساتھ سے دئیے گئے الطاف حسین کو پچھلے چالیس سال سے دئیے گئے مینڈٹ پر شرمندہ اور افسردہ ہے؟ ایم کیو ایم کے قائدین کا یہ حال ہے کہ ایک دوسرے کے خلاف ایم کیو ایم کو ہائی جیک کرنے کے الزامات لگا رہے ہیں اور مہاجروں کے حقوق کی بات تو بہت دور کی بات ، ایک دوسرے کے خلاف اسِ جدوجہد میں لگے ہوئے ہیں کہ اصل ایم کیو ایم کسِ کی ہے؟
تازہ خبر کے مطابق فاروق ستار کو الطاف حسین کی ایم کیو ایم نے اپنی جماعت سے نکال دیا ہے جبکہ فاروق ستار نے پہلے ہی الطاف حسین کو اپنی جماعت کی کتاب کے صفحات سے مٹا دیا تھا۔ سندھ کے اردو بولنے والوں کا چالیس سال تک الطاف حسین کی خاطر ہزاروں نوجوانوں کی جانوں کی قربانیوں اورتعلیم کو چھوڑ بندوق اٹھانے کی حکمت عملی کے نتجہ میں کیا ملا؟ اور اگر اب بھی کچھ عقل سے پیدل اور جذباتی مہاجر یہ سمجھتے ہیں کہ الطاف حسین انُکے لئے ایک نیا وطن بنائے گا تو ٹھیک ہے لگے رہو ، حالات اور واقعات نے بہت کچھ دکھا دیا ہے اور بہت کچھ آئیندہ سکھا بھی دیں گے اور سمجھا بھی دیں گے۔
دوسری جانب سندھ کو لسانی بنیادوں پر تقسیم کرنے والی جماعت، سندھ میں پچھلے چالیس سالوں سے سندھ سندھی بولنے والوں کا ہے کہ نام پر ہاریوں کا استحصال کرنے والی جماعت پی پی پی خود اپنے ہی کرتوتوں سے اب نا صرف سندھ کےدھی علاقوں کی جماعت بن کر رہ گئی ہے بلکہ اب لگ یوں رہا ہے کہ اگر اِنکے کرُتوت ، تعصب اور اقرباپروری کے کارنامہ اسی طرح جاری رہے تو پنجاب میں ایک مرتبہ پھر اپنے پیر جمانے کی بات تو درکنار سندھ میں شایداگلے انتخاب میں لاڑکانہ کی سیٹ لینا بھی بھاری نہ پڑھ جائے، کیونکہ ساری زندگی عوام نعروں سے بےوقوف نہیں بنایا جا سکتا۔ حالات اور واقعات تیزی سے تبدیل ہو رہے ۔ سندھ کی نئی نسل چاہے جو بھی رنگ و نسل ، زبان اور فرقہ سے تعلق رکھتی ہو اب بھٹو زندہ ہے اور بے بی زندہ ہے کے نعرے سن پیچھے چلنے والی نہیں۔سندھ میں لوگ پریشان ہو چکے ہیں جن کے پاس نہ پینے کو صاف پانی ہے، نہ روزگار ہے، نہ سڑکیں ٹھیک ، نہ درسگاہیں سلامت، بی بی زندہ ہے ، اور جئے بھٹو سے سندھ کے عوام کی تقدیر بدلنے والی نہیں۔ اب سندھ کی نئی نسل زرداری اینڈ فیملی اور اسکی کرپٹ گینگ سے پیچھا چھڑانا چاہتے ہیں۔ پی پی پی نے سیاسی طور پ ایم کیو ایم کا کارڈ استعمال کیا۔ سندھ کےعوام کو یہ ظاہرکیا کہ اگر ہم نہیں تو ایم کیوایک کا مہاجر سندھ پر قبضہ کر لے گا اور پھر ایم کیو ایم سے ہی انکے مہاجروں کے مینڈٹ کو خریدا۔ یہ سب ڈارمہ لوگ پچھلے تیس سال سے دیکھ چکے ہیں۔ ایم کیوایم کی گرتی ہوئی دیوار پی پی پی کے مکان کو بھی اپنے ساتھ ہی مسمار کر دےگی۔ 28 سالہ بلاول زرداری جو صرف جلسوں میں تیسرے درجے کے نعرے لگا کر خوش ہوتا ہے اور گلا پھاڑ کر ہر بے ہودہ نعرہ کے بعد ہنستا ہے، جس کو اسِ چیز کا پتہ نہیں کہ کسِ بات پر افسوس ظاہر کرنا ہے اورکسِ بات پر مسکرانا ہے۔اگر پی پی پی کا جا نشین زرداری کے بعد اسِ قسم کا کنفیوزڈ نوجوان ہوگا تو پھر کسی کو کچھ کرنے کی ضرورت نہیں پی پی پی بھی ایم کیو ایم کی طرح اپنی موت کا سامان خود تیار کرے گی۔ سند ھ کے نئے وزیر اعلی سمیت خورشید شاہ، مولا بخش چانڈیو فرماتے ہیں سندھ میں سب بھائی بھائی ہیں ،سب برابر ہیں، اردو بولنے والے ہمارے بھائی ۔ یہ باتیں کرتے وقت انِ بے غیرتوں کو بالکل شرم نہیں آتی کہہ اگر سندھ میں سب برابر ہیں تو یہ پھر کوٹہ سسٹم پچھلے چالیس سال سے قائم کیوں ہے؟ سندھ کی کابینہ میں ایک بھی اردو یا کوئی اور زبان بولنے والا وزیر کیوں نہیں ؟ کیوں سندھ کے وزیر اعلی ، وزیر داخلہ، وزیر خزانہ، یا کوئی وزیر کسی اردو بولنے والے کو کیوں نہیں بنایا جاتا؟ کیوں سندھ میں پولس، مالیات، داخلہ وغیرہ میں اعلی سطح پر ایک اردو بولنے والا افسر نہیں۔ کیا اسِ پالیسی سے سندھ کو یا سندھی بولنے والے کو کوئی فائدہ پہنچا بالکل نہیں بلکہ کرپشن اور غنڈہ گردی آسمان پر پہنچ چکی ہے، کیونکہ میرٹ کو دفن کرکے وڈیروں کی پرچیوں پر اعلی عہدوں پر تقرریاں کی جاتیں ہیں کسی عام اور قابل سندھی ہاری کے بیٹے یا بیٹی کو بھی کوئی اعلی عہدہ نہیں ملتا۔
مگر اب وقت بدل رہا ہے۔ میرا تجزیہ یہ کہتا ہے کہ سندھ کے عوام اب ایم کیو ایم اور پی پی پی کی تقسیم اور راج کرو کی سیاست اگلے انتخابات میں دفن کردیں گے اور ایک نئی سوچ جنم لے گی ۔وہ چاہے کسی نئی جماعت کی شکل میں ہو یا پھر پی پی پی اور ایم کیو ایم کے علاوہ کوئی اور پرانی جماعت بھی نئی سوچ کے ساتھ سیاست کے میدان مین اتر سکتی ہے۔